عمران خان نے خیبر پختونخواہ میں کیا کر لیا ہے
چوری تو کچھ وقفے سے ہوئی تھیں پر اتفاق سے دونوں گاڑیاں ایک ہفتے کے فرق سے مل گئیں. دونوں مالکوں کا تعلق پنجاب سے ہے. ایک کو پشاور سے فون آیا کہ جناب آپ کی گاڑی ہم نے پکڑی ہے تو آپ یہاں آ کر وصول کر لیں. جب یہ صاحب پشاور پہنچے تو ضروری کروائی کے بعد گاڑی ان کے حوالے کر دی گئی. انہوں نے اہلکاروں کو کچھ انعام دینے کی کوشش کی تو انہوں نے انکار کر دیا. انہوں نے کہا کہ یار گاڑی کی چابی میرے پاس ہے، مجھے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، میں اپنی خوشی سے آپ کو کچھ رقم دینا چاہتا ہوں. اہلکاروں کا جواب تھا کہ جناب ہم نے فرض پورا کیا اور اس انعام کی روایت یہاں ختم ہو چکی ہے. دوسرے مالک کو لاہور سے فون آیا. گاڑی وصول کرنے پہنچے تو کہا گیا کہ پچیس ہزار روپے دے دیں اور گاڑی لے جائیں. اسلام آباد دھرنا میں شریک ایک نسبتاً بڑی عمر کے آدمی سے پوچھا کہ تم دھرنے میں کیوں آئے ہو. کہنے لگا میرا ایک بچہ اے این پی کے دور میں پیدا ہوا تھا تو ہسپتال میں تیس ہزار لگا تھا. دوائیاں اس کے علاوہ تھیں اور ذلیل الگ ہوئے تھے. پی ٹی آئی حکومت میں دوائیوں سمیت دس ہزار لگا اور سارے مرحلے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی. بس میں سارے ملک میں ایسے ہی چاہتا ہوں. مولانا فضل الرحمان کے آبائی حلقے میں ایک آدمی نے کہا کہ میرے والد صاحب کا آپریشن تھا تو پہلی بار سرکاری ہسپتال میں اے سی چلتے دیکھے جو بجلی جانے پر جنریٹر پر بھی چلاۓ جاتے تھے. بہترین سہولیات کے ساتھ علاج ہوا. یہ وہ واقعات ہیں جو اخباری سرخیوں کی زینت تو نہیں بنتے اور نہ ہی ٹاک شوز میں زیر بحث آتے ہیں پر لوگ روزانہ بنیادوں پر انہیں محسوس کر رہے ہیں. ان کا نتیجہ اکا دکا واقعات کے علاوہ تمام ضمنی انتخابات میں سامنے بھی آیا ہے.
یورپ کے بیشتر ممالک میں کوئی نیا اسکول کھولنا ہو تو والدین پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی جاتی ہے. یہ کمیٹی اسکول کے تمام تر معاملات کی نگران ہوتی ہے. اسکول پرنسپل رکھتے وقت اس کا نمائندہ انٹرویو میں موجود ہوتا ہے. مالی معاملات بھی اس کا نمائندہ اسکول انتظامیہ کے ساتھ دیکھتا ہے. اسکول کے تمام فیصلوں میں اس کی شراکت ہوتی ہے. ایسے ہی خیبر پختونخواہ کے سکولوں میں والدین کی کمیٹیاں تشکیل دی جا چکی ہیں یا دی جا رہی ہیں. تعمیر اسکول پروگرام کی مد میں حاصل ہونے والی رقم ان کمیٹیوں کی زیر نگرانی خرچ ہو گی. جب کسی کا اپنا بچہ کسی اسکول میں پڑھتا ہو گا تو کوئی کیسے برداشت کرے گا کہ پینے کا پانی نہ ہو، چار دیواری نہ ہو، کرسیوں کی رقم میں خورد برد کی جائے یا ٹیچر حاضر نہ ہو. پورے صوبے میں یکساں تعلیمی نصاب کا قدم اس کے علاوہ ہے. کچھ ہی دیر میں اس سب کے ثمرات بھی سامنے آنا شروع ہو جائیں گے. بات ترجیحات کی ہے. لوگ گھر، خوراک، لباس سب میں کمی کر لیتے ہیں لیکن اپنے بچوں کی صحت اور تعلیم پر اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں. تحریک انصاف صحت اور تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ کر رہی ہے. ساتھ میں تمام سرکاری محکموں میں بہتری کی کوشش جاری ہے. اردو آتے آتے آتی ہے. ادارے بنتے بنتے بنتے ہیں. دہائیوں کے بگڑے اداروں کی کایا ہفتوں میں نہیں پلٹ سکتی. نجی شعبے میں ناکام ادارے یا بند ہو جاتے ہیں یا خرید لیے جاتے ہیں. نئی انتظامیہ آتے ہی تمام ملازمین کو نکال نہیں دیتی. معاملات میں بہتری لاتی ہے. پھر وہی ادارے انہی ملازمین سے بہتر چلنے لگتے ہیں. کوئی نہیں کہتا کہ پرانے افراد سب کے سب نکال باہر کرو. سی ای اوز یونہی لاکھوں میں تنخواہیں نہیں پاتے . ساری بات کپتان کی ہے، اس کے دائیں بائیں کھڑے لوگوں کی نہیں
خصوصا ً ان افراد پر افسوس ہوتا ہے جو عمران خان کی کامیابیوں کو کبھی اس کی طلسماتی شخصیت کا سبب قرار دیتے ہیں تو کبھی اس کی خوش قسمتی کا رونا روتے ہیں. ساتھ کہے جاتے ہیں کہ پڑھا لکھا طبقہ عمران خان کے ساتھ ہے. بیرون ملک مقیم پاکستانی عمران خان کے ساتھ ہے. پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ کوئی نا سمجھ بچہ ہے کہ جو چاہے کچھ لالچ دے کر اپنے پیچھے لگا لے؟ یہی دانشور تو پڑھے لکھے طبقے کے ہاتھوں بقول خود ان کے گالیاں کھاتے ہیں.پھر بھنویں سکیڑ کر کہتے ہیں کہ عمران خان کو معاملات کی سمجھ نہیں ہے. بس عمران خان کو کچھ نہیں پتہ باقی ٹیلی ویژن پر بیٹھے ہر شخص کو کائنات کے تمام راز معلوم ہیں. پتہ نہیں کون بیوقوف ہے؟ عمران خان، پاکستان کے عوام یا پھر یہ خود؟
عمران خان نے زندگی میں جو حاصل کیا ہے اس میں اس کی شخصیت، کردار، محنت اور الله کی مدد شامل ہے. فیصلہ سازی اس قدر مضبوط کہ کئی قریبی رشتہ داریاں اور دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل ہو گئی ہیں. کچھ نے تو سمجھ کر اپنی اصلاح کر لی اور کچھ ضد میں ڈٹے ہیں. لیکن پاکستان کے عوام کو عمران خان پر اعتماد ہے اور یہ اس نے اپنی زندگی لگا کر حاصل کیا ہے. اس کی ترجیحات خیبر پختونخواہ میں بھی درست ہیں اور انشا الله بطور وزیر اعظم پاکستان بھی درست ہوں گی
Blogger Comment
Facebook Comment